حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے اپنے خطاب میں کہا: فلسطینی مزاحمت کے خلاف اس آپریشن کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا اور طوفان الاقصی آپریشن صحیح وقت پر ایک جرات مندانہ اور دور اندیش فیصلہ تھا۔
انہوں نے کہا: پہلے گھنٹوں سے ہی یہ بات واضح تھی کہ دشمن طوفان الاقصیٰ کے وقت کا پتہ نہیں لگا سکا اور الجھن کا شکار تھا۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا: صہیونیوں کی سب سے بڑی غلطی اپنے مقاصد کا انتخاب ہے۔پہلے تو انہوں نے کہا کہ اس کا بنیادی مقصد حماس کو تباہ کرنا ہے۔ جس کے پاس عقل ہے وہ جانتا ہے کہ کوئی بھی طاقت حماس کو ختم نہیں کرسکتی۔
انہوں نے کہا: شروع میں کہتے تھے کہ حماس کی نابودی اولین ترجیح ہے حالانکہ ذرہ برابر بھی عقل رکھنے والا جانتا ہے کہ حماس کی نابودی کو ہدف بنانا ناقابل حصول ہے۔
حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے مزید کہا: تیس دنوں سے نام نہاد انسانی حقوق کے مغربی علمبرداروں کی نظروں کے سامنے غزہ پر بمباری کی جارہی ہے۔ غزہ میں جو کچھ ہوا وہ اسرائیل کی حماقت اور نااہلی کو ظاہر کرتا ہے، تقریبا ایک ماہ گزرنے کے بعد بھی اسرائیلی فوج غزہ میں ایک بھی کامیابی حاصل نہیں کرسکی ہے۔ انہیں ایک ماہ کے بعد بھی کوئی فوجی کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: یہ کوئی عام جنگ نہیں بلکہ فیصلہ کن اور تاریخی جنگ ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ کوئی عام جنگ نہیں بلکہ فیصلہ کن اور تاریخی جنگ ہے۔ ہم اسرائیل کے ساتھ ابتداء سے ہی حالت جنگ میں ہیں لیکن طوفان الاقصیٰ کے فوراً بعد سے ہم جنگ میں ان کے ساتھ شریک ہیں۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا: اس جنگ کا براہ راست ذمہ دار امریکہ ہے۔ وہ جنگ بندی اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل کی مذمت کو روکتے ہیں اور اسی لئے امام خمینی نے کہا کہ امریکہ بڑا شیطان ہے۔ عراق اور شام میں امریکی اڈوں پر مزاحمت کی طرف سے حملہ دانشمندانہ اور بہادرانہ ہے۔ عراقی مزاحمت آنے والے گھنٹوں اور دنوں میں مزید حملے کرے گی اور انشاء اللہ ہم دیکھیں گے۔ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ پچھلی جنگوں کی طرح جنگ نہیں ہے بلکہ ایک فیصلہ کن اور تاریخی جنگ ہے۔